مفسر کیلئے ضروری علوم (فہد مقبول)
تفسیر
ِقرآن مجید نہایت عظیم ،اہم اور حساس کام ہے۔دنیا کا کوئی کام ایسا نہیں جس کی
انجام دہی کیلئے کچھ ضروری مہارت اور بنیادی علوم کو جاننا ضروری نہ ہو ۔طبابت کا
شعبہ ہو یا انجینئرنگ کا،تجارت ہو یا صنعت و حرفت
کا شعبہ ،کسی بھی جگہ اصول و ضوابط کی پابندی اور کچھ پیشگی مہارت کے بغیر
کوئی کام بھی ممکن نہیں ہے۔تفسیر کیلئے
بھی علماء نے کچھ علوم میں مہارت کو لازمی قراردیا ہے۔
اس سلسلے میں علامہ جلال الدین سیوطی
ؒ نے پندرہ بنیادی علوم کا ذکر کیا ہے جو
ایک مفسر کیلئے ضروری ہیں اور کسی شخص کو ان علوم میں مہارت حاصل کیے بغیر تفسیرِ
قرآن جیسے اہم کام کی طرف دیکھنا بھی نہیں چاہیے۔علامہ سیوطیؒ کے بیان کردہ علوم
یہ ہیں۔
۱: عربی زبان میں مہارت:۔
مجاہد
ؒ سے منقول ہے کہ کسی ایسے شخص کیلئے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ پر ایمان
رکھتا ہو ،یہ حلال نہیں کہ کتاب اللہ کے بارے میں
لب کشائی کرے تا وقتیکہ وہ لغت عربیہ کا ماہر نہ ہو۔
امام
بیہقی ؒ نے اپنی کتاب" شعب
الایمان"میں امام مالکؒ کا قول نقل کیا ہے :
" میں ایسے شخص کو ضرور سزا دوں
گا اگر وہ میرے پاس لایا جائے کہ وہ عربی زبان جانے بغیر قرآن کی تفسیر کرے۔"
علامہ
سیوطی ؒ فرماتے ہیں کہ مفسر کیلئے عربی
زبان جاننا ضروری ہے کیونکہ اسی سے مفرد الفاظ اور الفاظ، جن پہلوؤں پر دلالت کرتے
ہیں ،ان کا علم ہوتا ہے۔
علامہ
زرکشی ؒ نے امام احمد بن حنبل ؒ کے بارے میں روایت کی ہے کہ وہ اس بات کو نا پسند
اور مکروہ قرار دیتے ہیں کہ عربی زبان جانے بغیر تفسیر کرے ۔
تفسیر کرنے والے کیلئے محض لغتِ عربیہ
سے شناسائی اور کچھ چیزوں کا جاننا ہی کافی نہیں بلکہ اس کیلئے مہارت ِتامہ درکار
ہے۔قرآن کی زبان کی عظمت اور بلندی کا
حساب لگانے کیلئے تو سینکڑوں ماہرین نے اپنی صلاحیتوں کے اظہار میں اپنی زندگیاں
وقف کر دیں لیکن یہ دعویٰ نہیں کر پائے کہ
انہوں نے قرآن کی لسانیاتی عظمت کو پا لیا
ہے۔وہ جس قدر گہرائی میں گئے قرآن سے گوہر ہائے نایاب اور لسانیاتی عظمت کے نشانات
حاصل کرتے چلےگئے۔
قرآن ِمجید عربی زبان میں ہے ۔قرآن
مجید فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے اس قدر بلند مقام رکھتا ہے کہ اس جیسا کلام تیار
کرنا انسانی بس کی بات نہیں ۔چودہ سو برس
کے ماہرین ِلسان نے قرآن کی زبان کی عظمت کا اقرار کیا ہے قرآن کی زبان کی عظمت
ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔کوئی شخص محض لغات کی مدد سے چند الفاظ کے معنیٰ جاننے کے
بعد یہ سمجھ بیٹھے کہ وہ عربی زبان سے آگاہ ہے،اور قرآن کی تفسیر کرنے لگے ،یہ
صورت جائز بھی نہیں اور نہ ہی ایسا ممکن ہے ۔یہ بات بالکل بدیہی اور واضح ہے کہ
قرآن چونکہ اعلیٰ درجہ کی عربی میں ہے
،قرآن مجید کی مہارت بھی اعلیٰ درجہ کی ہونی ضروری ہے ۔مفسر عربی مہاورات،مترادفات
کو بخوبی سمجھتا ہو۔
ماضی میں علامہ زمخشری ؒ
، علامہ بیضاوی ؒ،علامہ رازی ؒ اور اس طرح کے سینکڑوں ماہرینِ لسانیات نے
قرآن کی عربی کی غواصی کی ۔دورِحاضر میں تو مولانا حمید الدین فراہی،اور مولانا
امین احسن اصلاحی نے تو عربی زبان اور
جاہلی شاعری کو تفسیرِ قرآن میں خصوصی مقام دیا۔فراہی اور اصلاحی مکتبہ فکر میں
جاہلی شاعری کو ماخذِتفسیر میں حدیث سے بھی
پہلے رکھا گیا ہے۔تفسیرِ قرآن کے حوالے سے یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ عربی جاہلی شاعری
کو دیوان العرب کہا گیا ہے ۔حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ اور آپ کے بعد ہزاروں مفسرین
نے جہاں دیگر ماخذِ تفسیر کو بنیاد بنایا
وہاں جاہلی شاعری سے بھی استفادہ کیا۔
۲: علم ِنحو:۔
نحو وہ علم ہے جو الفاظ و کلمات کے
اعراب سے تعلق رکھتا ہے ۔معانی کا مدار اعراب پر ہوتا ہے۔زبر،زیر،پیش کے فرق سے
معانی میں زمین و آسمان کا فرق پیدا ہو جاتا ہے۔مثلاً اگر کوئی شخص "وَعَصٰی
اٰدَمُ رَبَّہٗ " میں " اٰدَمَ
" فتح کے ساتھ ،اور "رَبُّہٗ" رفع کے ساتھ پڑھے تو معانی فاسد اور
لغو ہو جائیں گے۔اس فرق سے آیت میں مذکور مضمون حضرت آدم ؑ کی لغزش کی بجائے اللہ کی خطا اور غلطی بن جائے
گا ۔اسی طرح اگر کوئی شخص "إِنَّ
اللہَ بَرِیْئٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ وَرَسُوْلُہٗ" کو لام کے کسرہ کے ساتھ ادا کرے تو معنیٰ فاسد ہو جائے
گا۔آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ"اللہ اور اس کا رسول مشرکین سے بری ہیں۔لیکن" وَرَسُوْلِہٖ" پڑھنے سے ترجمہ
یوں بن جائے گا کہ اللہ تعالیٰ
مشرکین سے اور اپنے رسول سے بری
ہے۔اور اسی طرح سورہ الفاتحہ میں "أَنْعَمْتَ
عَلَیْھِمْ" میں "أَنْعَمْتُ عَلَیْھِمْ" پڑھا جائے تو
معنیٰ الٹ ہو جائے گا۔
اسکی درجنوں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں کہ زبر،زیر اور پیش
کے فرق سے معنیٰ میں تبدیلی آجاتی ہے۔قرآن مجید کے آخر میں بعض نسخوں میں اُن
مقامات کی فہرست بھی دی گئی ہوتی ہے اگر ان مقامات پر اعراب میں غلطی سرزد ہوجائے
تو معنیٰ کفر تک پہنچ جاتا ہے۔
۳: علم
الصرف:۔
علم ِ صرف الفاظ اور فقرات بنانے کا علم ہے۔ترجمہ کیلئے یہ
جانناضروری ہے کہ کوئی کلمہ کونسا صیغہ ہے،
بغیر اس کےتو اس وقت تک اس کا درست معنیٰ کیا ہی نہیں جا سکتا۔عربی زبان
میں علم الصرف کو بنیادی حیثیت حاصل ہے اور مفسر کیلئے اس علم کا جاننا ناگزیر
ہے۔یہ تو ایسا ہی ہے کہ علم ِ تشریح
الاعضاء(Anatomy) کا علم جانے بغیر کوئی شخص مریض کا
اپریشن کرنا شروع کر دے۔
۴: محکم متشابہات کا علم:۔
سورہ الزمر کی آیت نمبر ۲۳ میں فرمایا کہ قرآن کی آیات اپنے
مضامین کے اعتبار سے ایک دوسری سے ملتی جلتی
اور ہم مضمون ہیں ۔اور قرآن کی بہترین اور اعلیٰ تفسیر یہ ہے کہ قرآن کی تفسیر قرآن کی روشنی میں کی
جائے ۔لہٰذا مفسر کیلئے ضروری ہے کہ اسے
قرآنی مضامین پر اس اعتبار سے دسترس حاصل ہو کہ
کسی آیت کی دیگر ہم مضمون آیات کون کونسی ہیں ۔ان تمام آیات کے اندر بیان
کردہ کسی مضمون کے تمام پہلوؤں کے مجموعی مطالعہ کے بعد ہی کسی مضمون پر قرآن مجید
کے نقطہ نگاہ کا پتہ چلے گا۔
۵: علم
الاشتقاق:۔
کسی مادے سے الفاظ تشکیل دینا علم الاشتقاق کہلاتا ہے ۔بعض
اوقات دو الفاظ کی صورت یکساں ہوتی ہے ،لیکن مادہ کے اختلاف کی وجہ سے معنیٰ میں
بڑا فرق ہوتا ہے۔مثلاً لفظ مسیح"سیاحت" یعنی سیر سے بھی مشتق ہو سکتا ہے
اور " مسح " سے بھی مفعول کا
صیغہ ہو سکتا ہے جسکا معنیٰ "ملاہوا" ،"مسح کیا ہوا" کے ہیں۔اب ظاہر ہے کہ لفظِ مسیح کا معنیٰ متعین
کرنے کیلئے اصل مادہ کا معلوم اور متعین ہونا ضروری ہے۔
۶: علم معانی :۔ ۷: علم البیان:۔ ۸: علم
البدیع:۔
ان تین علوم کا تعلق کسی کلام کے لسانی محاسن کے ساتھ ہوتا
ہے ۔قرآن مجید کے لسانی محاسن جاننے کیلئے ان علوم کا جاننا نہایت ضروری ہے۔قرآن
مجید میں جا بجا استعارات ،کنایات،تشبیہات اور فصاحت و بلاغت کے حوالے سے بہت سی بلیغ و بلند پایا مثالیں
موجود ہیں۔قرآن میں حقیقت و مجاز کا استعمال بھی بہت سے مقامات پر کیا گیا ہے ۔یہ
نکات قرآن مجید کے اعجاز کی وجوہ ہیں۔جس طرح کامیاب اور تجربہ کار جوہری ہی سونے
اور ہیرے کی قیمت کوجان سکتا ہے۔جوہری کے
علاوہ ایک عام شخص ہیرے کو ایک پتھر ہی سمجھے گا ،جبکہ جوہری فوراً اس پتھر کی
قیمت بھی بتا دے گا ۔اسی طرح قرآن کی فصاحت و بلاغت اور اس کی لسانی عظمت کو ماہر ِعربی
ہی جان سکتا ہے۔محض عربی زبان سے واقفیت ہی قرآن کے اعجاز کو سمجھنے کیلئے کافی نہیں۔بلکہ اس میں گہری مہارت درکار ہے۔
۹: غریب القرآن کی معرفت:۔
غریب القرآن سے مراد وہ الفاظ ہیں جو قرآن میں عام معنیٰ سے
ہٹ کر مخصوص معنیٰ میں استعمال ہوئے یا یہ
الفاظ عربی میں بہت شاذ ونادر استعمال ہوتے ہیں۔اورہر شخص ان
معانی سے واقف نہیں ہوتا ۔ان الفاظ کے مستند معانی معلوم کرنے کیلئے مخصوص ذرائع
ہیں۔شاہ ولی اللہ ؒ نے پانچ ایسے ذرائع بیان کیے ہیں ،جن سے معلوم ہونے والے غریب
الفاظ کے معانی معتبر سمجھے جاتے ہیں۔حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ ہر کسی کو
ان الفاظ کے معانی کے پیچھے پڑنے کی اجازت نہیں ۔حضرت عمر ؓ نے ایسے شخص کو سزادی
تھی جو محض اپنے علم کے اظہار کیلئے لوگوں
کو جمع کر کے غریب الفاظ کے معانی بیان
کرتا تھا۔غریب الفاظ کے معتبر معانی جانے بغیر
تفسیر کرنے سے تفسیر میں لوگوں کی
من مانی تشریحات شامل ہو جائیں گی اور قر آن تفسیر کرنے والوں کی ذاتی آماجگاہ بن
جائے گا۔
۱۰: علم
اصول الدین:۔
قرآن مجید میں مختلف مسائل
کےبیان کے مختلف اسالیب ہیں۔کونسی چیز حلال ہے کونسی حرام،کونسی چیز مکروہ ہے کونسی مستحب
اورمباح،اس کا فیصلہ کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔قرآن مجید میں اصولی احکام
دیے گئے ہیں انکی مزید وضاحت اور ان کی حیثیت اور مقام کو جاننے کیلئے پہلے تو
مفسر کیلئے ضروری ہے پورا قرآن مجید مکمل طور پر اس کی نگاہ میں ہو۔اسبابِ نزول
اور سیاق و سباق ِ آیات بھی کسی جگہ بیان شدہ حکم کی حیثیت کا تعین کرنے میں
مددگار ہوتا ہے ۔اسکے بعد حدیث نبوی ﷺ کے عظیم الشان ذخیرہ اور اس ذخیرہ میں سے
معتبر اور ثقہ احادیث سے استفادہ کرنا ،اگر کسی حدیث میں کوئی ضعف ہو تو یہ ضعف کس
طرح دور کیا جا سکتا ہے ۔اصول الدین ایک مستقل شعبہ ہے۔استنباطِ مسائل کا عمل ان
اصولو ں کو جانے بغیر ممکن نہیں ۔اگر ایسا کیا جائے گا تو پھر دین کے انحراف اور
من پسند استنباطات کے دروازے کھل جائیں گے ۔قرآن سے ہر کوئی اپنے مقصد کے تحت
نتائج حاصل کرے گا ۔قرآن اختلافات کا شکار ہو جائے گا۔
۱۱: اصول فقہ سے آگاہی:۔
علامہ سیوطی ؒ نے مفسر کیلئے ضروری
علوم میں اصولِ فقہ کے علم سے آگاہی کو
بھی لازمی قرار دیا ہے۔اصول الدین اور اصولِ فقہ کو بیک وقت ذہن میں رکھ کر مسائل کا استنباط کیا جاتا ہے۔یہی چیز اجتہاد کی بنیاد ہوتی
ہے۔ہر مجتہد کے کچھ اصول ِاجتہاد ہوتے ہیں۔اور وہ دورانِ اجتہاد ان اصولوں سے
انحراف نہیں کر تا۔اجتہاد کا علم اصولِ فقہ کے گرد بھی گھومتا ہے۔
۱۲: علم ِ اسباب النُّزول و القصص:۔
اسبابِ نزول وہ پس منظر ہے جس کے تناظر میں کوئی آیت نازل
ہوئی تھی۔جب کسی آیت کے نزول کا محرک اور پسِ منظر معلوم ہوتوتبھی اس آیت میں بیان شدہ تمام
پہلوؤں کی وضاحت ہوتی ہے۔بہت سے مواقع پر آیت سے جو معنیٰ ظاہر ہو رہا ہوتا ہے اس
میں بیان شدہ اصل مضمون مختلف ہوتا ہے۔آیت کا سببِ نزول اصل تفسیر کی طرف رہنمائی
کرتا ہے۔بعض اوقات سبب ِنزول کے بغیر بظاہر تفسیر نظر آرہی ہوتی ہے لیکن حقیقی
تفسیر سببِ نزول سے معلوم ہوتی ہے۔ بعض اوقات کسی آیت میں کسی اچھے کام کے کرنے
والے اور اس کے اجر کا ذکرہوتا ہے،یا کسی برے کام اور اس کے برے انجام کا تذکرہ
ہوتا ہے لیکن سببِ نزول متعین طور پر بتا
دیتا ہےکہ اس اچھے یا برے کام کا اصل مصداق کون شخص ہے۔اس کے علاوہ بھی تفسیر کی
کئی ایسی شکلیں ہیں جنکی وضاحت سببِ نزول کی مدد سے ہی ہوتی ہے۔شاہ ولی اللہ محدث
دہلوی ؒ نے بھی انہی اسباب کی بناء پر فرمایا ہے کہ مفسر کیلئے کسی آیت سے متعلق
سببِ نزول کی تمام روایات کا جاننا ضروری ہے۔سببِ نزول آیت کو مضمون کی اطلاقی
پہلوؤں سے مختلف جہتوں کی طرف بھی رہنمائی کرتا ہے۔
۱۳: اسلوبِ قرآن کی معرفت :۔
قرآن مجید کا اسلوب ایک منفردنوعیت کا
ہے۔اس اسلوب کی حقیقت کو وہی شخص سمجھ سکتا ہے جو قرآن پر مجموعی طور پرگہری نگاہ
رکھتا ہو، اور وہ قرآن کے مزاج سے گہری آگاہی رکھتا ہو قرآن کا کسی حکم کے بیان
میں انداز بیاں اس کا تعین کرتا ہے۔کہ یہاں کوئی عمل فرض ہے،واجب ہے یا مستحب ۔اسی
طرح ممنوعہ امور کے بیان میں قرآن کا پیرایہ اس کا تعین کرتا ہے یہ کام حرام ہے یا
مکروہ اسکی مثال اسلامی حدود و قصاص کا حکم ہے اس سلسلے میں شراب کیلئے
المائدہ:۹۰،۹۱،۹۲ ۔حرایہ
کیلئے المائدہ:۳۳۔سرقہ کیلئے المائدہ :۳۶۔ زنا کیلئے النور:۲،۳ کا مطالعہ کیا
جاسکتا ہے۔
۱۴: نسخ فی القرآن کی معرفت:۔
مفسر کیلئے ضروری ہے کہ وہ قرآن مجید
کی ناسخ و منسوخ آیات کے بارے میں بھی مکمل دسترس رکھتا ہو ۔اس صلاحیت کے بغیر اگر
کوئی تفسیر کرے گا تو ہو سکتا ہے کہ وہ ناسخ آیت کو منسوخ سمجھ لے یا منسوخ آیت کو
ناسخ سمجھ کر تفسیر کرنے لگے۔وہ منسوخ آیت کو محکم سمجھ بیٹھے۔یا کسی محکم آیت کے بارے میں کہ دے کہ
میں اسے منسوخ سمجھتا ہوں ۔اس طرح قرآن کی آیات سے انحراف کی راہیں کھل جائیں گی۔
مفسر کیلئے ضروری ہے کہ وہ اس سلسلے
میں موجود تمام اختلافی بحثوں کی حقیقت سے
آگاہ ہو جو قرآن میں نسخ کی موجودگی یا عدم موجودگی کے بارے میں پائی جاتی ہیں۔علماء
کرام کے ہاں نقطہ نگاہ یہ بھی ہے کہ قرآن
میں نسخ موجود نہیں ،اور جن لوگوں نے بعض آیات کو منسوخ قرار دیا ہے وہ منسوخ نہیں۔دراصل ان کے اطلاق
کے حالات اب موجود نہیں۔اگر قیامت تک کسی دور میں ایسے حالات پیدا ہو جائیں تو ان
کا اطلاق ممکن ہو گا ۔گویا علماء میں نسخ کی موجودگی میں بھی اختلاف ہے۔پھر ان
آیات کی تعیین میں بھی فرق ہے ۔کسی کے نزدیک کچھ آیات منسوخ ہیں ،جبکہ دوسروں کے
نزدیک کچھ دوسری آیات منسوخ ہیں۔مفسر کیلئے اس موضوع پر مکمل دسترس رکھنا
ضروری ہے ،ورنہ تفسیر پر اس کے گہرے اثرات
مرتب ہوں گے۔
۱۵: علم
الحدیث:۔
حدیث قرآنِ مجید کی تفسیر کا دوسرا
بنیادی مأخذ ہے۔بلکہ قرآنِ مجید کے معنیٰ کی حفاظت کے سلسلہ میں حدیث کی مسلمہ حقیقت ہے ۔احادیث میں ہر طرح کی
احادیث موجود ہیں اور محدثین نے انکی درجہ
بندی اور ہر حدیث کے بارے میں فیصلہ کر دیا ہوا ہے کہ ثقافت و اعتبار کے حوالے سے کس درجہ میں ہے
۔اوراگر اس میں کوئی ضعف پایا جاتا ہے تو
اس ضعف کا سبب کیا ہے ۔کیا اس سبب کو دوسرے ذرائع سے دور کیا جا سکتا ہے ،مفسر
کیلئے ضروری ہے کہ وہ محدثین کے کسی بھی حدیث کے بارے میں فیصلے سے آگاہ ہو ۔ایسا
نہ ہو کہ وہ کمزور اور موضوع روایات سے استدلا ل کرتا پھرے۔ماضی میں ایسا ہوا کہ
مسلمانوں کے مختلف فرقوں نے اپنے اپنے نقطہ نگاہ کی تائید میں کمزور روایات سے
اپنا مقصد حاصل کرنے کی کوششیں کیں۔کوئی بدنیت شخص کسی معتبر ثقہ روایت کو اس لیے
چھوڑ دے کہ میرے نزدیک یہ معتبر نہیں
ہے اور وہ غیر معتبر کو اپنے نقطہ نگاہ کی
تائید کیلئے استعمال کرنے لگے۔
۱۶: علم السیرۃ:۔
اگرچہ علامہ جلال الدین سیوطی ؒ کے مفسر کیلئے بیان کردہ
ضروری علوم میں یہ علم شامل نہیں لیکن مفسر کیلئے ضروری ہے کہ وہ روایات سیرت کی
درجہ بندی معتبر اور غیر معتبر سیرت نگاروں کے اصول ِسیرت نگاری سے آگاہ ہو ۔اگر
اسے معتبر اور غیر معتبر روایات کا علم ہو گا ،تو تبھی وہ آیات سیرت کی تفسیر میں
معتبر روایات پیش کر کے تفسیر کر سکے گا۔اس علم کی مفسر کیلئے ضرورت کا یہ پہلو
بھی قابل ِذکر ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہؓ کے
فرمان کے مطابق آپ ﷺ کا اخلاق قرآن ہی تھا
(کَانَ خُلُقُہٗ الْقُرْاٰنَ)اس حوالے سے مفسر کیلئے ضروری ہے کہ وہ نبی کریم ﷺ کی سیرتِ
طیبہ سے متعلق تمام مقامات ِقرآن کو بھی
جانتا ہو اور اس کے ساتھ ہی نبی کریم ﷺ کی حیاتِ طیبہ ﷺ کے تمام واقعات و حوادث سے
آگاہ ہو کہ کون سے پیش آنے والے واقعہ کے پس ِمنظر میں کون سی آیات نازل ہوئیں ،مخالفین
نے حق کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنے کیلئے کیا حرکت کی اور اس کے توڑ میں قرآن نے
کیا ہدایت دی۔اس طرح حق و باطل کی کشمکش میں
پیش آمدہ مسائل اور قرآنی حکمت
ِعملی کا پتہ چلے گا ۔لوگوں کی بد اخلاقی کے مقابلے میں آپ ﷺ کو کیا ہدایات دی
گئیں۔اسی سے انسانوں کے رویوں کے بارے میں تعلیمات نبوی ﷺ کا پتہ چلے گا۔
ایسا بھی ہوتاتھا کہ کوئی واقعہ پیش
آتا تو آپ اسکی مطابقت سے آیت کی تلاوت فرماتے۔گویا قرآن کی اطلاقی شکل آپ ﷺ کے
اسوہ میں پائی جاتی ہے ۔آپ ﷺ کی نجی واجتماعی زندگی،غزوات،حق
وباطل کی کشمکش میں مسلمانوں کو ہمت و جرأت دلانے اور مشکل حالات میں آپ ﷺ کی حکمتِ عملی کا رہنما قرآن ہی تھا ۔آپ ﷺ
نے مخالفتِ حق کے دوران کس کس موقع پر قرآن سے کس طرح استدلال فرمایا،اس کا علم
ہمیں واقعات ِسیرت ہی ہوتا ہے۔
۱۷: علم
الکلام اور علم الادیان سے آگاہی:۔
درست عقائد کے اثبات اور غلط عقائد کے رد کے دلائل سے جو
علم بحث کرتا ہے اسے علم الکلام کہتے ہیں۔قرآن کے بنیادی مضامین میں عقائد
(توحید،رسالت،ملائکہ،کتابیں،آخرت)بھی شامل ہیں۔علمِ مخاصمہ میں بھی بنیادی طور پر
درست عقائد کے اثبات اور باطل عقائد کا رد کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں مفسِّر کیلئے
ضروری ہے کہ وہ قرآن کے اس موضوع کے بیان میں اس کے اسلوبِ استدلال سے مکمل آگاہی
حاصل کرے ورنہ اثبات و ابطال عقائد میں قرآن کے زورِبیان اور زورِ استدلال سے
آگاہی حاصل نہ ہوگی۔اگر کوئی شخص آج کے دور میں تفسیر کرتا ہے تو اس کیلئے ضروری
ہے کہ عقائد کے بارے میں قرآنی دلائل کے علم کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی تاریخ میں فکری
کشاکش اور مختلف گروہوں کے عقائد ودلائل سے آگاہ ہو۔قرآن مشرکین سے بحث کرتے ہوئے انکی
جہالت و گمراہی کو ملحوظ رکھتے ہوئے بالکل سادہ اور عام فہم دلائل پیش کرتا ہے۔یہود
کے عقائد اور ان کے طرزِ عمل میں دلائل کا رنگ اور ہے۔نصاریٰ سے بات کرتے ہوئے
انکے ساتھ پہلے دونوں مذاہب سے مختلف رویہ اختیار کرتا ہے۔اس فرق کو جاننا مفسِر
کیلئے ضروری ہے۔اس فرق کا اگر مشاہدہ کرنا ہو تو مشرکین کے حوالے سے سورۃ الانعام
اور سورۃ النحل کا مطالعہ سب سے زیادہ مفید ہوگا۔یہود کی مذمت کے حوالے سے
سورۃ المائدہ
اور سورۃ البقرۃ اور سورۃ آل
عمران میں سب سے زیادہ مواد موجود ہے۔نصاریٰ
سے مخاصمہ کیلئے سورۃ آل عمران دلائل کا شاہکار ہے۔منافقین کے طرزِ عمل کی مذمت دیکھنی
ہوتو سورۃ التوبہ،سورۃ المنافقون،سورۃ النساء کا کچھ حصہ ،سورۃ
الأحزاب کے ابتدائی رکوع اور
سورۃ الحدید کی
کچھ آیات اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔اس مناسبت سے مفسر کیلئے تاریخ مذاہب سے مکمل
آگاہی ضروری ہے۔
۱۸: علم الموھبہ:۔
نبی کریم ﷺ کے چہار گانہ فرائض سورۃ آل ِعمران کی آیت نمبر
۱۶۴ میں بیان کیے گئے ہیں۔یہ فرائض تلاوتِ آیات،تزکیہ نفوسِ، تعلیمِ کتاب اور حکمت
ودانائی کی تعلیم ہیں۔حکمت و دانائی ایک نور ہے۔اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر شخص جو
اس کا اہل اور طالب ہو،اسے عطا کیا جاتا
ہے۔یہ نور اور فہمِ قرآن سے محبت ،إحسان کے درجہ میں نیک اعمال اختیار کرنے سے
حاصل ہوتا ہے۔احسان یہ ہے کہ إخلاص،اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے،نیکی میں مسابقت کے
جذبہ کے ساتھ بہترین انداز سے نیکی کے کام سر انجام دینا۔
اس
حوالے سے قرآن مجید میں ارشاد ہے:۔
یُؤْتِی الْحِکْمَۃَ مَنْ
یَّشَآءُ وَمَنْ یُّؤْتِ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ أُوْتِیَ خَیْراً کَثِیراً(البقرۃ ۲؛۲۶۹)
ترجمہ:۔ وہ(اللہ تعالیٰ) جسے چاہتا ہے حکمت عطا کردیتا
ہے۔اور جس کووہ حکمت عطا کردے تو گویا اس کو خیر کثیر عطا کر دی گئی۔
علامہ سیوطی ؒ فرماتے ہیں کہ جس شخص کے دل میں سنت پر عمل
کرنے کے ذوق و شوق کی بجائے بدعات کی گندگی موجود ہو،تواضع اور انکساری کی جگہ
تکبر اور نخوت ہو، نفس کے تزکیہ کی بجائے دنیاداری ،مادہ پرستی،ہوائے نفس،حُبِّ
دنیا اور حرص وطمع موجود ہو اس کے دل میں یہ نور پیدا نہیں ہو سکتا۔اس کے دل کے
اندر قرآن میں بیان شدہ اسرار و حکم کو جاننے کا اور اللہ تعالیٰ کی مرضی معلوم
کرنے کا جذبہ ابھر نہیں سکتا۔
اگر کسی کے دل میں ریاکاری ،لوگوں سے
داد وصول کرنے کی حرص موجود ہوتو بھی یہ نور
پیدا نہیں ہو سکتا۔علامہ سیوطی ؒ نے یہ باتیں قرآن مجید کی اس آیت کی روشنی میں
کہی ہیں کہ:۔
سَأَصْرِفُ عَنْ اٰیٰتِیَ الَّذِیْنَ یَتَکَبَّرُوْنَ فِی
الْأَرْضِ۔۔۔(الأعراف ۷:۱۴۶)
ترجمہ:۔ یقیناً میں رُخ پھیر دوں گا اپنی آیات اور
نشانیوں سے ان لوگوں کا جو اس زمین میں تکبر کرتے ہیں ۔
البرہان
میں علامہ زرکشیؒ فرماتے ہیں کہ:۔
جاننا چاہیے کہ
قرآن کا مطالعہ کرنے والے کو وحی کے معنیٰ کا فہم حاصل نہیں ہوسکتا اورنہ ہی اس کے اسرار اس پر کھل سکتے ہیں۔جب تک
اس قلب میں بِدعت ،کِبر،ہَوائے نفس،حُبِّ دنیا ہو یا وہ گناہ پر مُصِر ہو یا ایمان
کے کمال سے محروم ہو یا کسی ایسے مفسر کے قول پر اعتماد کرے جو بیچارہ علم سے عاری
ہو یا محض اپنی عقل کے نتائج کی طرف میلان
رکھتا ہو ،یہ تمام امور فہَمِ قرآن میں حائل اور مانع ہیں ۔بعض عوامل زیادہ حائل
ہوتے ہیں بعض کم۔(سیوطی،الاتقان،ج:۲،ص:۱۸۱)
مفسرکیلئے
ضروری علوم اور صفات میں سے ایک صفت عِلم الزُّھد والرقاق بھی ہے۔نبی کریم ﷺ
کے اُسوہ حسنہ کی روشنی میں زَھد کا کیا اسلامی تصور ہمارے سامنے آتا ہے ،جب
اسلامی زھد کی حدود،اسکے حصول کا طریقہ کار معلوم ہوگا تو قرآنی آیات کی تفسیر
بہتر طور پر ہو سکے گی۔ورنہ دیگر مذاہب کے راھبانہ تصورات تفسیر ِقرآن کو اعتدال
سے ہٹا دیں گےاور مفسر اپنی ذاتی اُفتاد ِطبع کو قرآنی زھد قرار دے کر قرآن کو
کہاں سے کہاں لے جائے گا۔
مفسر کیلئے اس پہلو کی موجودگی قرآن مجید کے اس بیان کی
روشنی میں اہمیت رکھتی ہے کہ قرآن بتلاتا ہے کہ
اہلِ کتاب نے لاعلمی اور ہدایت کی عدم موجودگی میں اپنی کتابوں کو اختلافات
اور من مانی تشریحات کی نذر نہیں کیا بلکہ انہوں نے اپنی کتابوں کی من مانی
تشریحات ازراہِ سرکشی ،اللہ کے خوف سے بے نیازی اوردُنیوی مفادات کے حصول کی خاطر
کیں۔اس سلسلے میں قرآن کی مندرجہ ذیل آیات وضاحت کرتی ہیں۔(البقرۃ:۲۱۳)(الشوریٰ:۱۴)(آلِ عمران:۷۷)
۱۹: گزشتہ قوموں کے حالات سے آگاہی:۔
قرآنِ مجید کے بنیادی مضامین میں تذکیر بایام اللہ ہے۔یعنی گذشتہ
قوموں کے فرمانبردار لوگوں کا رویہ اور ان کی کامیابی اور نافرمانیوں کی طرف سے انبیاء کی مخالفت ،حق کا انکار اور ان
لوگوں کے برے انجام کی خبر دی ہے۔اس لیے مفسر کیلئے ضروری ہے کہ تاریخ،جغرافیہ اور
انسانی نفسیات جیسے علوم سے آگاہ ہو۔جن علاقوں میں کوئی قوم کب آباد تھی،اس زمانے
کے سیاسی و معاشرتی وفکری اور معاشی حالات معلوم ہوں گے تو قصص قرآنی کی بہتر
تفسیر ہو سکے گی نیز مالی فراوانی یا مالی تنگ دستی کے حالات میں لوگوں کے رویّے کیا
ہوتے ہیں،ان سے آگاہی تفسیرِ قرآن میں ہوتی ہے۔گذشتہ قوموں کے احوال میں انسانی رویوں کا ذکر اکثرملتا ہے ۔(مثلاً القصص :۵۸ ، بنی اسرائیل:۴۔۸ ،۱۷ ، النحل :۱۱۱،۱۱۲ ، سورۃ السبا کا دوسرا رکوع)
جن مفسرین نے آج کے دور میں تاریخ،جغرافیہ
اور اماکن و مساکن کی مدد سے تفسیرکی ہے انکی تفاسیر میں ایک اضافی افادیت کا پہلو
نمایاں ہے۔تفہیم القرآن (مولانا مودودیؒ)، ضیاء القرآن(پیر محمد کرم
شاہؒ)،تفسیر ماجدی(مولانا عبد الماجد دریاآبادیؒ) کا مطالعہ کیاجا سکتا ہے۔
ابن ِ ابی الدنیاؒ فرماتے ہیں کہ علم ِ قرآن اور جو علوم و حقائق اس سے مستنبط ہوتے ہیں وہ
ایک ناپید کنار سمندر ہے۔یہ علوم مفسر کیلئے صرف بمنزلہ آلہ کے ہیں۔مفسر انکی مدد
سے قرآن کے علوم کو حاصل کر سکتا ہے ۔اور جو شخص ان اصولوں اور قواعد کے ماتحت
تفسیر کرے گا تو اسکی تفسیر کو معتبر شمار کیا جائے گا۔
ان علوم کے بغیر کسی کا تفسیر میں دخل
دینا ایسا ہی ہوگا جیسے طب میں کوئی ایسا شخص دخل دینے لگے جس کو نبض کی بھی پہچان
نہیں ۔نہ صرف یہ کہ یہ اقدام ِخلافِ شرع اور کتابِ الٰہی کی سراسر بے حرمتی
ہوگا،خلاف عقل بھی ہوگا۔انسان اسی فن میں کچھ بولتا ہوا اچھا لگتا ہے جس فن کی اسے
خبر اور تحقیق ہو ۔اور اگر کوئی اس ضابطہ کو ملحوظ نہیں رکھتا تو وہ دیوانوں کی
فہرست میں شامل کرنے کے لائق ہے۔
۲۰: علم الحساب:۔
اگرچہ اس علم کا تعلق مفسر کیلئے اضافی طور پر ضروری علوم
سے ہے تا ہم قرآن کے کئی ایک مقامات ایسے
ہیں ۔جہاں علمِ حساب کا ماہر شخص بہتر وضاحت کر سکتا ہے ۔حساب کا تعلق انسانوں کے مالی
حقوق سے ہے اور قرآن کا ایک حصہ زکوٰۃ اور میراث وفرائض کے مسائل پر مشتمل ہے اور
اس میں لا مُحالہ حِساب کی ضرورت ہے ۔سورۃ یونس کی آیت :۵، سورۃ بنی اسرائیل کی
آیت:۱۲ اور علم ہیئت کے متردد مسائل قرآن مجید میں بیان ہوئے ہیں ان آیات کی تفسیر ایک ماہر
اراضی بہتر طور پر پیش کرسکتا ہے۔
ڈاکٹر محمور احمد غازی لکھتے ہیں کہ
قرآن مجید نے بہت سے علوم طبعیہ کی بنیادوں کا ذکر کیا ہے مثلا ً نباتات کے جوڑے ،
ان کے اگنے کیلئے ضروری لوازمات مثلاً روشنی،حرارت،پانی،نباتات کی اقسام اور
نوعیتیں بیان کی ہیں۔اسی طرح علم الانسان،علم الجنین ،علم تاریخ،علم جغرافیہ،ارضیات
وغیرہ کے بارے میں اساسی باتیں بیان کی ہیں اس کے ساتھ ہی قرآن ہمیں مجبور کرتا ہے کہ ہم کائنات میں غور کریں ۔کیونکہ کائنات انسان
کیلئے مسخر کر دی گئی ہے۔لہٰذا انسان کا فرض ہے کہ وہ کائنات کی اشیاء سے استفادہ
کرے۔قرآن کی ان تعلیمات کے نتیجے میں علوم کے ان شعبوں میں ترقیاں ہوں گی تو یہ
ترقیاں اور انکشافات قرآن کے حقائق کی وضاحت میں مددگار ہوں گی اور قرآن کی عظمت
کا اظہار کریں گی۔(بحوالہ:محمود احمد غازی ،محاضرات قرآن،صفحہ ۲۸۳)
۲۱: علم ِ منطق:۔
علم منطق کا تعلق استدلال سے ہے۔قرآن مجید کی بنیاد استدلال
پر ہے،قرآن کا خطاب ایک عام شخص سے بھی ہے اور اعلیٰ درجہ کے ذہین فطین لوگوں کو
بھی قرآن مطمئن کرتا ہے ۔یہ استدلال مادہ اور براہِ راست بھی ہے اور اعلیٰ درجہ پر
منطقی اور بالواسطہ انداز سے بھی ہے ۔مفسر کا بنیادی کام قرآن کے پیش کردہ دلائل
سے حاصل ہونے والے نتائج کی نشاندہی کرنا ہے۔اس لیے مفسر کیلئے ضروری ہے کہ منطقی
استدلال کر سکنے کی صلاحیت کا حامل بھی ہو۔پھر یہ بھی ضروری ہے کہ وہ عقلِ سلیم کا
مالک ہو اور قرآن کے مجموعی مطالعے اور
دیگر مأخذ تفسیر سے درست طور پر استفادہ
کے بعد آیات سے قرآن کی روح کو سمجھتے
ہوئے آیات سے استدلال کرے ۔
مفسر
کے ضروری علوم کے حوالے سے مولانا محمد مالکؒ
کاندہلوی اپنی کتاب منازل
العرفان میں لکھتے ہیں:۔
غرض تفسیرِ قرآن کیلئے ان علوم میں
مہارت و بصیرت شرط ہے ۔علوم کے بغیر کسی
شخص کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ وہ قرآن مجید کی تفسیر کا قصد کرے ۔ان بیان کردہ
شرائط کے علاوہ مفسر و مترجم کے واسطے یہ بھی ایک شرط ہے کہ اس نے علم باضابطہ کسی
استاد سے حاصل کیا ہو محض تراجم دیکھ کر یا چند کتب کے مطالعہ کو کافی سمجھنا نہ
تو شرعاً درست ہے اور نہ ہی عقلاً۔جس طرح
کوئی شخص ڈاکٹری یا فنِ طب کی کتابوں کا مطالعہ کر کے ڈاکٹر اور طبیب نہیں ہو سکتا
اور قانون کی دو چار کتابوں کا ترجمہ دیکھ کر بیرسٹر اور وکیل نہیں ہو سکتا اسی طرح تراجم اور
کتب کے مطالعہ سے کوئی مفسر نہیں ہو سکتا حالانکہ ڈاکٹر اور قانون و وکالت انسانی
علوم ہیں۔انسانی فکر کا اپنی صلاحیتوں اور جدوجہد سے اس کو حاصل کر لینا ممکن
ہے۔لیکن قرآن کریم تو علوم الٰہیہ اور معارف رَبّانیہ کا ایک ناپید کنار سمندر ہے،پھر
یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان باقاعدہ علم حاصل
کیے بغیر ان روحانی علوم میں مہارت کا
مدعی بن جائے۔
مترجم اور مفسر ہونے کیلئے یہ بھی
ضروری ہے کہ علماءِ معاصرین اور فضلاء ِزمانہ کی نظروں میں اس کا علم و فہم اور تقویٰ
مسلّم ہو۔کیونکہ علم تو وہی ہے جسکا اہلِ علم و فضل اعتراف کریں۔علم محض دعوؤوں یا
اخبارات و رسائل میں دو چار مضامین کی اشاعت سے نہیں حاصل ہوجاتا۔
ترجمہ و تفسیر صرف ایسا ہی عالم کر
سکتا ہے جو غیر مترجم قرآن کریم سے آیات کی تلاوت کرکے انکے صیغے، اعراب وغیرہ کی تشریح کے ساتھ آیات کی
شرح و تفصیل کر سکے اور یہ بتا سکے کہ آیات کا ربط ،سیاق و سباق سے کیا مراد ہے
اور الفاظ ِ کلام اللہ سے کون کون سے احکام مستنبط ہورہے ہیں اور شانِ نزول ِ آیات
کیا ہے۔اور جس شخص میں یہ صلاحیت وقدرت نہیں اسے چاہیے کہ وہ امت کے سامنے اپنے آپ
کو مفسر ِ قرآن کی حیثیت سے پیش نہ کرے بلکہ مناسب ہے کہ کوئی اور کام کرے۔
مفسر
و مترجم کیلئے ان تمام شرائط اور علومِ مذکورہ سے متصف ہوناضروری ہے۔
قرآن
مجید کے ارشاد سے ظاہر ہورہا ہے۔ارشاد خداوندی ہے:۔
وَمَنْ
أَضَلَّ مِمَّنِ اتَّبَعَ ھَوَاہُ بِغَیْرِ ھُدًی مِّنَ اللہِ ط إِنَّ
اللہَ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ (سورۃ القصص:۵۰)
ترجمہ:۔ اور اس شخص سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو اپنی
خواہشات کی پیروی کررہا ہو،بغیر اس کے کہ اللہ کی طرف سے اس کے پاس کوئی ہدایت
وعلم ہو(تو ایسے لوگ یقیناً ظالم ہیں )اور اللہ تعالیٰ ظالموں کی رہنمائی نہیں
فرماتا۔
وَمِنَ
النَّاسِ مَنْ یُّجَادِلُ فِی اللّٰہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّ لَا ہُدًی وَّ لَا کِتٰبٍ مُّنِیْرٍ۔ ثَانِیَ
عِطْفِہٖ لِیُضِلَّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لَہٗ
فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ وَّ نُذِیْقُہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ عَذَابَ
الْحَرِیْقِ(سورالحج:۸)
ترجمہ:۔ اور لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو جگھڑتے رہتے
ہیں اللہ کے بارے میں بغیر ِ علم اور ہدایت اور بغیر کسی کھلی ہوئی روشن کتاب
کے،اس حال میں کہ ایسا شخص اپنی جانب اور رخ کو حق کے راستہ میں باطل کی جانب
پھیرے ہوئے ہوتا ہے۔تا کہ بھٹکا دے لوگوں کو خدا کے راستے سے (یقیناً)ایسے شخص کے
واسطے دنیا میں ذلت و رسوائی ہے اور آخرت میں ہم اسے ایک دہکتے ہوئے اور جلا دینے
والے عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔
تو آجکل اسی طرح یورپ کے افکار و
نظریات سے مرعوب یا اسکی اشاعت کرنے والے اہلِ حق کے ساتھ اپنے گمراہ کن نظریات و
خیالات کو لیکر جدال و خصومت پر آمادہ رہتے ہیں۔اور حال یہ ہے کہ ان لوگوں کے پاس نہ
توکوئی علم ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی حجت و برہان،اور اس کے باوجود اہلِ حق اور سلف
کی تردید و مخالفت پر آمادہ رہتے ہیں۔
جو شخص قانونِ حکومت اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنا چاہے اور اس
کی دفعات کی عجیب وغریب تشریحات کرے جو عدالت عالیہ کے کسی فاضل جج یا کسی ماہرِ
قانون نے نہیں کی اور نہ اسکے حاشیہ خیال میں کبھی اس دفع کی یہ تشریح گزری، تو
ایسا شخص یقیناً حکومت کا مجرم ہےاور حکومت کی قانونی گرفت اور تعزیر سے نہیں بچ
سکتا۔بالکل اسی طرح وہ شخص بھی ہے جو
قانونِ خداوندی اور کلامِ الٰہی کے ایسے
عجیب وغریب معنیٰ بیان کرے،جو عہد صحابہؓ لیکراس وقت تک کسی امام، مفسر اور عالم
ربّانی سے نقل نہ کیے گئے اور نہ ہی ایسے
حضرات، آئمہ اور مفسرین کی تحقیقات یاا صول سے مستنبط ہو سکتے ہیں۔تو یہ شخص اللہ
تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کا مجرم ہے۔اور یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِہٖ اور یُرِیْدُوْنَ أَنْ یُّبَدِّلُوْا کَلَامَ اللہِ کا مصداق ہونے کے باعث شریعت کے قانون سے نا
پسندیدہ شخص ہوگا۔
علم قراءت کا ذکر کیوں نہیں
ReplyDelete